ریاض 6اکتوبر ( آئی این ایس انڈیا ؍ ایس او نیوز) سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ہم سعودی قوم کے دفاع اور اس کی حفاظت کے لیے کسی سے مفت میں یا بھیک میں کچھ نہیں لیتے اور اپنے دفاع کے بدلے میں کسی کو کچھ دیں گے بھی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہمارے تعلقات مثالی ہیں۔ سعودی عرب امریکا سے اسلحہ مفت میں نہیں لیتا بلکہ اپنے پیسوں سے خریدتا ہے۔
امریکی ٹی وی چینل 'بلومبرگ' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں محمد بن سلمان نے کہا کہ 2021 تک سعودی عرب کی تیل کمپنی 'ارامکو' کے اثاثے ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔سعودی ولی عہد کے امریکی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب کے حوالے سے ایک متنازع بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی عرب کی بادشاہت ان کے دم سے قائم ہے اور امریکا اپنا ہاتھ کھینچ لے تو سعودی بادشاہت دو ہفتے بھی نہ ٹک پایے۔ اسی حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سعودی ولی عہد نے کہا کہ سعودی عرب اور امریکا کے باہمی تعلقات برسوں پر محیط ہیں۔
سعودی عرب 1744 یعنی امریکا کے قیام سے بھی 30 سال پہلےسے موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر براک اوباما 8 سال تک اقتدار پر فائز رہے اور انہوں نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں ہمارے ایجنڈے کے خلاف کام کیا۔ اس کے باوجود ہم نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ نتیجتاً ہم کامیاب رہے اور امریکا ناکام ہوا۔ اس کی مثال مصر میں دیکھی جاسکتی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ غلط فہمیاں ہر جگہ پیدا ہوتی ہیں۔ ایک گھر میں بھی خانگی امور پر تمام افراد کا 100 فی صد اتفاق نہیں ہوتا۔ دوستوں کے درمیان بھی اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔ ماضی کی نسبت سعودی عرب اور امریکا کے باہمی تعلقات بہتر اور خوش گوار ہیں۔ جرمنی اور کینیڈا کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سعودی ولی عہد نے واضح کیا کہ کینیڈا نے سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش کی اور ہم پر اپنا حکم چلانے کی کوشش کی گئی۔ یہ صرف کینیڈا کا معاملہ نہیں۔ سعودی عرب کے حوالے سے کئی دوسرے ممالک کے ایسے خیالات ہوسکتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے سختی کے ساتھ گریز کرنا چاہیے۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی قوم کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں تو ہمیں اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ایک سوال کے جواب میں شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب اپنے دفاع کے بدلے میں کسی کوکچھ نہیں دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکا سے مفت میں کچھ نہیں لیتے۔ امریکا سے اسلحہ پیسوں سے خریدا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور امریکا کے باہمی تعلقات صرف اسلحہ کی خریداری تک محدود نہیں۔دو سال قبل سعودی عرب دوسرے ممالک سے اسلحہ خریدتا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد ہم نے اپنی اسلحہ پالیسی پر نظرثانی کی۔ آئندہ 10 سال تک ہم سعودی عرب کی ضرورت کا60 فی صد اسلحہ امریکا سے خرید کریں گے۔ اسی لیے ہم نے 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب 99 فی صد امور درست ہوں اور فی صد پر آپ کو اعتراض ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔امریکی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں بن سلمان نے کہا کہ ہم نے مشرق وسطیٰ میں بہت سے اہم مقاصد حاصل کیے ہیں۔ انتہا پسندانہ نظریات کو شکست دینے کے لیے ہماری کوشش کو کامیابی حاصل ہوئی اور دہشت گردی کو شکست کا سامنا ہے۔ داعش جیسا خون خوار بھیڑیا بھی تھوڑے ہی عرصے میں شام اور عراق سے غائب ہوگیا۔ دہشت گردی کی حمایت کرنے والے کئی ممالک دو سال میں تباہ ہوگئے۔ ہم دہشت گردوں کو ختم کرنے کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں ایرانی مداخلت کی روک تھام کررہے ہیں۔ امریکا اور سعودی عرب نے ایران کو خطے سے بے دخل کرنے کے لیے کئی منصوبوں پر سرمایہ کاری کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایرانی مداخلت کی روک تھام کے لیے 50 ممالک نے مشترکہ اسٹریٹجی اختیار کی۔